انڈیا اور بنگلہ دیش کے خدشات کے باوجود چین نے اس منصوبے کے لیے 1.2 ٹریلین یوآن مختص کر دیئے ۔
دنیا کے سب سے بڑے پن بجلی کے میگا ڈیم کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، چین کے پریمیئر نے کہا ہے کہ ہم اسے "صدی کے منصوبے" کا نام دیتے ہیں۔
تبت کے علاقے میں یارلونگ ٹسنگپو دریا پر بہت بڑا ڈھانچہ بنایا جارہا ہے۔
لی کیانگ نے چین کے 14 ویں پانچ سالہ منصوبے کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ میگا پروجیکٹ چین کی اکانومی کے اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔پہلے اس منصوبے کا اعلان 2020 میں کیا گیا ۔
تبت کے کچھ گروپس،انڈیا اور بنگلہ دیش نے چین کے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔جس دریا پر چین یہ ڈیم تعمیر کر رہا ہے وہ دریا انڈیا اور بنگلہ دیش سے گزرتا ہے۔
انڈین اور بنگالی حکومت کے مطابق اس ڈیم کے بننے سے دونوں ممالک کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور چین جب چاہے دونوں ممالک کا پانی روک سکتا ہے۔
لی کی طرف سے اعلان کردہ اس منصوبے کو دریا کے نچلے حصے تک پہنچنے کے لئے منصوبہ بتایا گیا ہے، سرکاری اسٹیٹ نیوز ژنہوا کے مطابق یہ منصوبہ پانچ کیسکیڈ ہائیڈرو پاور اسٹیشنز پر مشتمل ہوگا، جس میں سالانہ 300 ملین میگا واٹ بجلی تیار ہو گی۔چین نے اس منصوبے کے لیے 124 ارب ڈالر تخمینہ لگایا ہے۔
ٹائمنگ یا دائرہ تعمیر کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں دی گئیں، لیکن ژنہوا نے جو اعداد و شمار رپورٹ کیے ہیں وہ 2020 کے اعلان سے منسلک ہیں
چین، دنیا کا سب سے بڑا کاربن اخراج کرنے والا ملک ہے۔اسی لیے چین توانائی کی بہت بڑی توسیع پر کام کررہا ہے کیونکہ وہ اخراج میں کمی کے اہداف تک پہنچنے اور اپنی بجلی کی فراہمی کو مستحکم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں دسیوں ہزار پن بجلی کے منصوبے تعمیر کے آخری مراحل میں ہیں۔
بھارت اور بنگلہ دیش نے اس منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، دونوں ممالک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس منصوبے سے پانی کو کبھی بھی روکا یا ڈائیورٹ کیا جا سکتا ہے۔
یارلونگ ٹسنگپا جب بھارت میں داخل ہوتے ہے تو یہ براہمپترا دریا بن جاتا ہے کیونکہ یہ ہندوستان کے اروناچل پردیش اور آسام ریاستوں میں جنوب میں بہتا ہے اور آخر میں بنگلہ دیش میں دریائے جمنا کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں پر ڈیم لاکھوں لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے مشیر برائے خاص نیرج سنگھ منہاس نے کہا کہ چین کبھی بھی پانی کو روک یا اس کے بہاؤ میں تبدیلی کر سکتا ہے۔
بھارتی حکومت نے دسمبر میں اس منصوبے پر بیجنگ کے ساتھ باضابطہ طور پر اپنے تحفظات کا اندراج کیا، اور جنوری میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان دو طرفہ ملاقاتوں کے دوران کیا۔
اس کے جواب میں، حکام نے کہا ہے کہ چین پانی پر تسلط نہیں چاہتا اور کبھی بھی اپنے ہمسایوں کی قیمت پر "اپنے لئے فوائد" کا پیچھا نہیں کرتا ۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے دسمبر میں بتایا کہ "چین زیر بہاؤ اقوام کے ساتھ موجودہ ایکسچینج چینلز کو برقرار رکھے گا اور تباہی کی روک تھام اور تخفیف پر تعاون کو آگے بڑھائے گا۔"
چینی حکومت نے تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے سے خطے میں ملازمتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، ملکی توانائی کی فراہمی میں اضافہ ہوگا اور قابل تجدید شعبے میں ترقی پر زور دیا جائے گا۔ لی نے کہا، "ماحولیاتی نقصان کو روکنے کے لئے ماحولیاتی تحفظ پر خصوصی زور دینا چاہئے۔"
0 Comments